رات کو پروگرام سے فارغ ہوئے تو ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب نے ان ساتھیوں سے ملے جو کان پور میں دعوت کے کام سے عملاً وابستہ تھے اور اس حقیر سے اصرار کیا کہ دو تین لوگ تو وہ ہیں جو اسلام قبول کرچکے ہیں‘ چند لوگ وہ ہیں جو اسلام کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہیں‘ آپ اگر صبح ہمارے ہاں ناشتہ کرلیں تو سبھی سے ملاقات ہوجائے گی اور جو لوگ کلمہ پڑھنے والے ہیں وہ کلمہ بھی پڑھ لیں گے‘ مطالبہ ایسا تھا کہ قبول کرنے کے علاوہ چارہ نہیں تھا‘ ناشتہ پر ڈاکٹر صاحب کے دعوتی رفقاء میں تین لوگ ایسے تھے جو چند ماہ پہلے ایک فیملی کے چار افراد کے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دو مسائل کے سلسلہ میں مشورہ کرکے اسلام قبول کرنا چاہ رہے تھے اور تین لوگ ایسے تھے جو اسلام کے بارے میں دلچسپی رکھتے تھے اور اسلام کو پڑھ رہے تھے ان میں ایک ایم ڈی ڈاکٹر تھے جو اپنے فن میں بڑے معتبر سمجھے جاتے ہیں اور علاقہ میں بہت ممتاز ان کی پریکٹس ہے‘ اس حقیر نے وقت کی کمی کی وجہ سے ان سبھی سے سوال کیا کہ آپ لوگوں کا کیا گمان ہے کہ اسلام قبول کرنے یا اسلام کے بارے میں جاننے کیلئے یا اسلام قبول کرکے اپنے مسائل کو حل کرنے کے مشورہ کیلئے‘ آپ خود آئے ہیں یا آپ کوکوئی لایا ہے؟ ان سب نے ایک زبان ہوکر کہا اپنے آپ کون آتا ہے؟ مالک کی دَیا ہوئی کہ اس نے ہمیں یہاں بھیجا‘ میں نے کہا جب یہ بات ہے کہ وہ مالک خود آپ کو اسلام سمجھانے یا قبول کرنے کیلئے لے کر آئے ہیں اور وہ مالک جو ساری ماؤں کو مامتا دینے والے ہیں وہ خود آپ کا مارگ درشن کررہے ہیں اور آپ کو اپنا بنانا چاہ رہے ہیں تو بندہ کا اس سے پیچھے ہٹنا کیسی ناقدری کی بات ہے‘ اس لیے میری درخواست ہے کہ سمجھنا سمجھانا تو ہوتا رہے گا موت کا کچھ پتہ نہیں کس لمحہ موت آجائے اور اگلا سانس ہمیں نصیب نہ ہو‘ اس لیے آئیے! ہم سب مل کر پہلے کلمہ پڑھ کر اپنے پیارے‘ مالک کے حضور اپنے کو سرینڈر کرتے ہیں بعد میں سمجھنا سمجھانا کرتے رہیں گے۔ ماحول کچھ اللہ کی طرف سے ایسا بنا کہ سب تیار ہوگئے اور سب نے کلمہ پڑھ لیا‘ اللہ کی کرم فرمائی کہ سب لوگوں نے کلمہ پڑھا اور ہندی میں اس کا ترجمہ بھی کیا‘ کلمہ پڑھنے کے بعد کچھ ایسا اطمینان ہوا کہ کسی نے بھی کوئی سوال یا اشکال نہیں کیا بلکہ آگے کے مسائل پر مشورہ ہوتا رہا وہ ڈاکٹر بڑے ذہین لگ رہے تھے‘ میں نے ان سے خاص طور پر اسلام کی ڈیپ اسٹڈی (گہرائی سے مطالعہ) کی درخواست کی‘ کان پور سے ہم آگے سفر پر نکل گئے‘ تین دن کے سفر کے بعد دوبارہ لوٹتے ہوئے ہمیں چند گھنٹے کان پور گزارنے تھے‘ ڈاکٹر صاحب ملنے کیلئے آگئے اور الگ سے کچھ وقت مانگا اور بتایا کہ تین دن سے 12 گھنٹے سے زیادہ وہ انٹرنیٹ پر اسلام کو پڑھ رہے ہیں‘ انہوں نے مجھ سے معلوم کیا کہ اللہ کے 99 صفاتی ناموں میں سے کون سے نام سے اس کا ذکر کرنا چاہیے‘ اس حقیر نے کہا کسی بڑے حاکم سے جو ضرورت پیش کرنی ہوتی ہے اسی صفت کا حوالہ دے کر سوال کیا جاتا ہے‘ جیسے کسی کو کسی حاکم سے مکان بنوانا ہوتا ہے تو کہتے ہیں‘ حضور آپ کتنے لوگوں کے مکان بنواچکے ہیں‘ اگر کسی مقدمہ سے رہائی کیلئے سفارش کرنی ہوتی ہے تو کہتے ہیں آپ کتنے بے قصوروں کی رہائی کروا چکے ہیں‘ اس طرح جو سوال اللہ سے کرنا ہو اسی صفاتی نام سے اللہ کو یاد کریں‘ وہ بولے میں رات سے سوچ رہا ہوں‘ یاولی (اے میرے دوست) بس اسی نام سے اس کو یاد کروں‘ اصل میں مجھے یہ نام اس لیے زیادہ دل کو لگا کہ میدان محشر کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے‘ کسی مقدمہ اور عدالت میں اگر کوئی دوست حاکم اعلیٰ ہو تو پھر وہ برائے نام خانہ پوری کرکے دوست کو نکال لایا کرتا ہے‘ اگر اللہ سے دوستی ہوجائے گی تو پھر محشر کا مسئلہ آسان ہوجائے گا۔ یہ حقیر ان کی یہ بات سن کر بے حد متاثر ہوا اور خیال آیا کہ دعوت کے واسطہ سے یہ نیا خون ہی ہمارے جمود کو توڑ سکتا ہے صرف تین دن کا یہ مسلمان‘ اس کا ایمان اور اللہ سے تعلق اور صفاتی ناموں کی معرفت سے بام عروج کو پہنچ گیا‘ یہ یَاوَلِیُّ سے اللہ کو یاد کرنا پسند کررہا ہے اور اسلام کے بنیادی عقیدہ آخرت پر اس کا ایمان کتنا قوی ہوگیا ہے کہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ محشر یوم حساب کا مسئلہ سمجھ رہا ہے اور اس مسئلہ کیلئے اللہ سے رشتہ جوڑنے کی سعی کررہا ہے۔ کاش ہم دنیا و آخرت کے مسائل کے اس تریاق و دعوت کی اہمیت کو سمجھتے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں